بیف کی خون آلو د سیاست
نا ظم ا دین فا رو قی
بیف کی خون آلو د سیاست
نا ظم ا دین فا رو قی
گائے اعلیٰ ذات کے ہندوں کے عقیدہ کے مطابق ایک متبرک جانور ہے ، آزادی کے بعد سے ہی چند فرقہ پرست ہندو تحریکات ذبیحہ گاؤ پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں ، گذشتہ 7دہوں میں گا ؤ کشی کے عنوا ن پر سینکڑوں فسادات ہوئے اور معصوم مسلمانوں پر مظالم ڈھائے گئے ، حال ہی میں یوپی کے ایک گاؤں دادری میں ایک لوہار اخلاق احمدکو گا ئے کا گو شت ر کھنے کاالزام لگا تے ہو ئے مار مار کر ہلاک کردیا گیا اور ان کے افراد خاندان کی بری طرح پٹائی کی گئی ، منظم پیمانے پر مندر کے لاؤڈاسپیکر سے یہ چھوٹی افواہ پھیلائی گئی کہ اخلاق احمد کے گھر میں گائے کا گوشت رکھا ہے ، گاؤں کے فرقہ پرست لوگوں نے اخلاق احمد کے گھر پر حملہ کردیا ۔
مقامی بی جے پی ایم ایل اے سنگیت سوم جو مظفر نگر کے فسادات میں ملزم ہے دادری کے واقعہ میں اس کا لڑکا راست ملوث ہے ، بہار کے الکشن کے پیش نظر آرایس ایس نے گائے کی سیاست کا بھر پور سہارا لیا اور اخلاق احمد کے قتل کی مذمت سے بڑھکر سارے ملک میں ہندو فرقہ پرست دانشوران ،سیاست دان ، اور میڈیا میں گائے کے تحفظ اور اس کے تقدس پر بڑھ چڑھ کر بیانات دینے لگے اور عوام کو یہ ظاہر ہونے لگا کہ بڑے پیمانے پر مسلمان گائے ذبح کرکے سارے ہندوستان میں کھاتے ہیں ، بہار کے الکشن کے موقع پر اس و اقعہ نے ووٹروں کے دل ودماغ کو فرقہ وارانہ زہر سے بھر دیاگیا ، ایک حیوان کو انسان سے بڑھ کر اہمیت دینا اور حیوان کے تحفظ کے نام پر انسانیت کا خون کرنا سراسر بر بریت ہے ۔
گؤ کشی پر خوفناک تعزیری قوانین :۔
ملک کے مختلف ریاستوں میں گؤ کشی کے خلاف مختلف ریاستی قوانین عائد ہیں جس کے مطابق 5 ماہ سے لیکر10 سا ل کی سزا ئیں ہیں ، جیسے جموں وکشمیر ، کرناٹک ،آندھرا پردیش ، ویسٹ بنگال ، تلنگانہ ، بہار ، آسام میں پانچ ماہ قید با مشقت کی سزا ہے ، جبکہ ہریانہ ، پنجاب میں دس سال ، مدھیہ پردیش ، گجرات ، چھتیس گڑھ میں 7سال ، مہاراشٹرا ، دہلی ،ہماچل پردیش ،میں 5سال ، یوپی میں دوسال ، راجستھان میں ایک سال قید با مشقت کی سزا ہے ۔ دوسرے گنھا و نی جرائم میں جبکہ سزائیں 6ماہ سے 7سال تک متعین ہیں ۔
گجرات ہا ئی کو رٹ میں مر زا قر یشی قصا ب نے بیل ، بچھڑے اورنا کا رہ بڑے جا نو روں کے ذبیحہ پر پا بند ی کے خلا ف ایک مقدمہ دا ئر کیا تھا ۔ قر یشی قصا ب کی عر ضی خا رج کر دی گئی۔ یہ مقد مہ سپر یم کو ڑ ٹ تک پہنچ گیا۔ 2005 میں سپر یم کو ڑ ٹ کے 7 رکنی فل بنچ نے گجر ات ہا ئی کو رٹ کے فیصلہ کو بھا ل رکھا ۔ مقد مہ کے فیصلہ میں کہیں بھی ہندو عقا ئد اور جذبا ت کی با ت نہیں کی گئی۔ اس فیصلہ میں دستو ر ہند کے د فعہ 48کا سہا را لیکر اقلتیوں کو ان کے خر دو نوش کے حقو ق سے محر وم کیا گیا۔ دفعہ 48کی تشر یحا ت آ ج تک کھل کر ملک کے سا منے نہی آ ی ہے۔
گاؤ رکھشا کے لئے حکومت نے ہند کروڑہا روپیہ کا بجٹ مختص کیاہے ، گاؤشالوں کی تعمیر اور موجودہ گاؤشالوں میں بہتر سہولیات فر ا ہم کر نے کے لئے ہر سطح پر کوشش جاری ہیں،اس وقت گاؤ مو ترکے فروخت کے تین سو سے زیادہ ویب سائٹس ہیں گائے کے پیشاب ، دودھ ،دہی گھی اور گوبر کو مقدس مانا جاتا ہے بڑے پیمانے پر گائے کا پیشاب برآمد کیا جاتا ہے ، نٹ پر گائے کے پیشاب کی ایک شیشی ڈھائی سے4چارسو روپیہ تک میں دستیاب ہے ، ویدک پنڈتوں کا ماننا ہے کہ اس میں بہت سے فوا ئد انسا نو ں کی صحت کیلئے ہیں ، جب کسی مندر میں دلت پوجا کے داخل ہوتا ہے تومندر کو گائے کے پیشاب اور گوبر سے پاک کیا جاتا ہے ۔
بیف کی صنعت خسا رہ کا شکا ر:
مہا را شٹرا میں پا بندی عا ئد ہو نے تک جملہ 1180 کڑور کا سالانہ ٹرن اؤر تھا ۔ ریا ست میں 12 لا کھ سے زیا دہ غیر کا ر گر د نا کا رہ بیل ہیں۔ ایک بیل پر کسا ن کو سالا نہ 39,336 روپیہ خر چ آتا ہے۔ ایک تخمینہ کے مطا بق ریا ست میں نا کا رہ بڑے جا نو ر وں کی نگہدا شت پر سالا نہ 4677 کڑور روپیہ خر چ عا ئد ہو گا ۔ کسا ن اور د یہی عوا م اسے جا نور کو کیو ں پا لنگے جسے ایک سا ل گذارنے کے بعد کو ئی فا ئد ہ نا ہو۔
ہندو ستا ن میں جا نو ر کی جملہ تعداد 50 کڑور سے بڑھکر ہے۔ جسمیں گا ئے ، بیل ، بکری ، گھو ڑے، گد ھے، شا مل ہیں۔ اگر اسکی تجا رت نہ ہو اور ان سے نہ تجا رتی استفاد ہ نہ کیا جا ئے تو یہ ایک قو می ما لی بو جھ بن جا ئے گا ۔ جا نو ر و ں کے گو شت کے سا تھ ، چمڑ ا ، سنگ، ہڈ یا ں ، با ل ، پو نچھ، ا نتڑیا ں اور خو ن کی مختلف صنعتو ں میں بڑ ے پیما نے پر ما نگ ہے۔ چمڑے کی صنعت کے علا وہ بڑے جا نو ر کے مختلف اشیا ء ، ادوا ء ، مڈیکلااور سر جکل پرو ڈکشن میں استعمال ہو تے ہیں۔ بیف کی دنیا میں ایک بڑی تجا رت او ر صنعت ہے۔ لا کھو ں لو گو ں کا روز گا ر ذ بیجہ گا ؤ پر پا بند ی سے متا ثر ہوا ہے جسمیں ہندو مسلم دونو ں شا مل ہیں۔
ہندؤوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ایسی ہے جو گائے کو مقدس نہیں مانتی ان کا کہنا ہے کہ رامائن اور مہا بھارت میں بڑے پیمانے پر گائے ذبح کرنے اور کھانے کے ثبوت موجود ہیں ۔
بیف ہندو بھی کھاتے ہیں :ٹا ئمزوف انڈیا 4؍ اکتوبر 2015کے شمارے میں ایس اے آئیر کا مضمون بعنوان ’’ بیف کھانے والے ہندؤں کو اپنا حق چاہئے ‘‘ کے عنوان سے تفصیلی مضمون شائع ہوا جس میں ابھوں نے شاستروں سے دلائل پیش کیا ہے کہ گائے کھانا ایک مذہبی حق ہے ، ہندؤں کی اکثریت بالخصوص دلت آدی واسی اور درج فہرست اقوم گائے کا گوشت آج بھی کھاتی ہے ، ، انھوں نے تحریر کیا کہ بعد کے دور میں جب دھرم شاستر لکھاگیا اس وقت کے برہمن پنڈتوں نے گاؤکشی اور بیف کھانے پر خود ساختہ طو ر پر سخت مذ ہبی پا بندی عا ئد کر دی جس کا ہندو دھرم سے کوئی تعلق نہیں ۔اخلاق کے قتل کے بعد ہندوستان کے کئی مقامات پر روشن دماغ ہندؤوں نے بیف فیسٹول منعقد کئے ، کیرلا ، پنجاب اور تلنگانہ میں بیف فیسٹول کا انعقاد عمل میں آیا میڈیا میں ان خبروں کو دبادیا گیا ۔
بیف صرف مسلمان نہیں کھاتے بلکہ عیسائی ، دلت اور دوسرے طبقات بھی بیف کھاتے ہیں ، سوائے ہندوستان اور نیپال کے ساری دنیا میں بڑے پیمانے پر بلا روک و ٹوک بیف کھایا جاتا ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر جو اقوام بیف کھاتے ہیں کیا ان سے آرایس ایس کی حکومت جنگ کرے گی یا اپنے سفارتی تعلقات بیف کھانے کی بنیاد پر منقطع کر لے گی ۔فلمی اداکار اوم پوری ایک اہم نکتہ اٹھا یا کہ جب بیف کے برآمد پر کوئی پابندی نہیں تو پھر کھانے پر کیسے پابندی عائد کی جاسکتی ہے ۔ہر سال ہندوستان 20لاکھ ٹن بیف بیرونی ممالک کو برآمد کرتا ہے ، دنیا کا دوسرا سب سے بڑا بیف اکسپورٹ کرنے والا ملک ہندوستان ہے ، ریڈ میٹ (بیل کا گوشت) بلومیٹ (بھینس کا گوشت) ملا کر30 ہزار کڑوڑ رو پیہ کا میٹ ایکسپورٹ کیا جاتا ہے ۔
اگر گائے کی تقدیس پر عقلی مباحث کئے جائیں تو تقدس کے قائل فرقہ پرست عناصر ٹک نہیں سکتے ۔سابق چیف جسٹس آف انڈیا ججس کاٹیجو نے اس ضمن میں بڑی اہم بات کہی ، جانور کبھی انسان کی ماں نہیں بن سکتی ، یہ ایک احمقانہ بات ہے ،گاؤ کشی پر پابندی کی بات کرنے والے تمام سیاست داں احمق نمبر ایک ہیں ، دوسرا ایک ہم نکتہ یہ ہے کہ اگر واقعی ماں کا درجہ ایک گائے رکھتی ہے تو وہ پھر اس کو تجارتی مقاصد کے لئے کیوں استعمال کیا جاتا ہے ،اسکا دودھ ، دہی،گو بر کیوں فرو قت کیا جا تا ہے۔ گائے کو ماں کی حیثیت سے یہ لوگ اپنے بیڈرومس میں کیوں نہیں رکھتے ، جب تک بچے جنتی ہے اور دودھ دیتی ہے یہ متبرک مانی جاتی ہے ، جب گائے بوڑھی ہوجاتی ہے تو پھر اسے سڑکوں اور سوکھے ہوئے کھیتوں میں ہانک دیا جاتا ہے ، چارہ اور پانی کے لئے تڑپ تڑپ کر مرجاتی ہے ، دنیا
کے کسی مذہب میں ایسی تعلیمات نہیں ملتی کہ صرف ماں کی تعظیم وتکریم کی جائے اور باپ کو گھروں اور جانور وں کے کھوٹھوں سے باہر کردیا جائے یہ موضوع طویل دلچسپ مباحث کا متقاضی ہے ۔
فضا کو متواتر مکدرکیا جا رہا ہے :۔
جب سے بی جے پی نے حکومت سنبھالی ہے ہر روز مسلمانوں کے خلاف نئے نئے مسائل کھڑے کئے جا رہے ہیں ، پہلے لوجہادکا شوشہ چھوڑا گیا ، وہ کئی دن تک موضوع بحث بنا رہا ، پھر وندے ماترم اور یو گا کو مسلمانوں پر لازم کرنے کی کوشش کی گئی ، پھر گھرواپسی کے پروگرام کے نام پر غریب جاہل چند مسلمان خاندان کو مرتد کرنے کی کوشش کی گئی ، وشواہندو پریشد نے گجرات میں ڈنڈیا رقص میں مسلم نوجوانوں کی شرکت پر زوروشور سے پابندی عائد کردی ، مسلمانوں کو نو را تر ی کے ڈنڈیا رقص سے کیا دلچسپی ہے ، با ر با ر مسلم مخالف ہوا گرم کی جارہی ہے ۔
پھر آرایس ایس کے سرچالک موہن بھاگوت نے قبرستان کا مسئلہ اٹھاکر کہا کہ تمام ہندوستانیوں کے لئے ایک قبرستان ہونا چاہئے ، ان کا اشارہ مسلمانوں کے قبرستانوں کی طرف تھا ، ملک کے طول وعرض میں جہاں بھی جاتے ہیں مسلمانوں کے چھوٹے بڑے قبرستان ان کو چبھتے ہیں ۔
بہار الیکشن کے موقع پر زبردشت منصوبہ بند پیمانے پر گا ؤ کشی کا ہنگامہ کھڑا کیا گیا ۔ ہندوعوام کو اتنا مشتعل کیاگیا کہ بات بات پر مسلمانوں کو کسی نہ کسی بہانے پر حملے کرکے بری طرح زخمی یا قتل کرنے کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے ۔ آگرہ میں ایک مردہ گائے کو ہندؤوں نے بیچا ، 4مسلمان اسے خریدکر اس کا چمڑا نکال رہے تھے ا چا نک ایک فساد کھڑا کردیا گیا ، مسلمانوں کے دکانوں اور مکانوں پر حملے کئے گئے پولس کی رپورٹ میں صاف طور پر بتلایا گیا کہ یہ مردہ گائے تھی کسی نے ذبح نہیں کیا ۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے حکومت پر سرفراز ہونے کے چند دن بعد ایک نوجوان مسلم آئی ٹی انجینئر کو پونا میں پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا گیا ، چند ماہ بعد اجمیری گیٹ دہلی میں کسی مسلمان کی کار کو ٹکر کے مسئلہ میں ہندو ہجوم جمع ہو گیا اور افراد خاندان کے سامنے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا گیا ، اب اخلاق احمد کو گھسیٹ کر مار مار کر ہلاک کردیا گیا ، سرچالک موہن بھاگوت کے اس بیان کے تناظر میں ان واقعات کو دیکھنا چاہئے ، انھونے کہا کہ ذبیحہ گاؤ پر قانون سازی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ، بلکہ عوام میں شعور بیدار کردیا جائے تو یہ ا س مسلہ کا حل نکل آئے گا ، انھوں نے شعور بیداری کا لفظ ذومعنوں میں دبے الفاظ میں استعمال کیا ، ان کا اشارہ عوام میں ایسے ہندومذہبی جذبات کو کُوٹ کُوٹ کر بھر دیا جائے کہ ذراسی بات پر ہندو خود مشتعل ہوکر مسلمانوں کو قتل وغارت گری کے ذریعہ سبق سکھائیں ۔
یہ طا قتیں ہندو مذہب کے تحفظ کے نام پر ملک کو قانون کو ہاتھ میں لے کر کسی بھی قسم کے گھناؤنے جرائم کرنے سے پس وپیش نہیں کر رہی ہے ، وقفہ وقفہ سے آرایس ایس اور بی جے پی وشواہندو پریشد کے قائدین ، مسلمانوں کے خلاف سخت متنازعہ بیانات دے رہے ہیں ، بی جے پی حکومت اکثریت میں ہے اپوزیشن سکولر جماعت انتہائی کمزور ہیں ، بی جے پی چاہتی ہے کہ جتنا جلد ہو سکے اقلتیوں کے پرسنل لاء برخواست کرکے یکساں سیول کوڈ نافذ کرے ، 13اکتوبر 2015کو سپریم کورٹ نے حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کے سلسلہ میں حکومت تساہلی برت رہی ہے حکومت کو چاہئے کہ تیز تر اقدامات کرتے ہوئے سیول کوڈ نافذ کرے ، حکومت نے 3ماہ کا وقت مانگا ہے ، ظاہر ہے حکومت کے ادعا کے بغیر سپریم کورٹ اسطرح کا سخت نوٹ عام طور پر نہیں لیتا ، ملک کی ترقی کے نام نہاد دعوں کے سا ئے کے تحت آرایس ایس کا ایک نکاتی فارمولہ روبہ عمل لای جارہا ہے کہ زندگی کے ہر میدان میں مسلمانوں کو تنگ اور کمزور کیا جائے ، اس کے علا وہ جہا ں قانون سازی کی ضرورت ہے وہاں قانون سا زی کی جا ئے اور عوامی بیداری کے نام پر فرقہ پرست سیاست داں آئے دن اشتعال انگیزی کو روز بروز چڑھا رہے ہیں ۔
میڈیا کا افسوسناک رویہ : ۔ پرنٹ میدیا ، الکٹرانک ، سوشل میڈیا میں اخلاق احمد کی ہلاکت برملا مذمت کے بجائے گاؤ رکھشا کے نام پر مسلمانوں کے خلاف پھر ایک مرتبہ بڑے منظم پیمانے پر فرقہ پرست طاقتیں پروپگنڈہ کررہی ہیں ۔ہندوستان کے قومی ومقامی اخبارات میں کئی سو مضامین اس عنوان پر شائع ہوئے ،معدودے چند سیکولر صحافیوں کو چھوڑکر اکثر نے مسئلہ کے رخ کو موڑکر مسلمانوں کی شدت پسندی ،اور ہندوؤں کے جذبات کو مجروح کرنے ،اور ایک بلین ہندو ستا نیو ں کے خلاف اس طرح کے مذموم حرکتوں کا الزام لگایا ، مسلمانوں کو ناعقل فرقہ پرست ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ۔
دی ہندو 6اکتوبر 2015کے شمارے میں دیودت پٹنائک کا مضمون’’ ہولی کا ؤ اِن ہولی وائلنس‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ، پہلے تو اخلاق احمد کے قتل کی مذمت کی بعد مضمون نگار نے مضمون کا رخ بدل کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہندوستان میں سیکولر جماعتوں کی مسلمان کو خوش آمدی پالیسی بہت بڑے پیمانے پر ملک کو نقصان پہنچا ر ہی ہے ، انھوں نے کانگریس پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ 1980کے دہے میں کانگریس حکومت نے مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے شا ہ با نو کیس کے بعد قا نو ن سا زی کی ملک کی سکیو لر سیاست 6دہوں سے ملک کو تباہ کررہی ہے ۔
13؍ اکتوبر 2015کے ایکنامک ٹائمز کے شمارے میں سندیپ رائے کا ایک مضمون شائع ہوا ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو ذرہ برابر خراش آجائے تو سیکولرفورس وجماعتیں ہنگامہ کھڑا کردیتی ہیں ، جبکہ ہندوں پر ہونے والے مظالم اور زیادتیوں کے سلسلہ میں خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہتے ہیں ،مخصو ص اقلیتوں کے واقعات پر سیکولر قائدین دانشور اور ادیب سخت احتجاج کرتے ہیں ، لیکن جب ہندوں کے مذہبی خداؤں کی بے حرمتی کی جاتی ہے اورایک بلین ہندو عوام کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی جاتی ہے تو یہ خاموش رہتے ہیں ، انھوں نے سوال کیا کہ دہشت گر و حملوں میں ہزاروں ہندو مارے گئے تب ان سیکولرزم کے علمبردار کے کان پر جوں تک نہیں چلی صرف اقلیتوں کا درد کا فی نہیں ہوتا بلکہ ہندوعوام کا درد بھی ان کے دلوں میں ہونا چاہئے اگر وہ واقعی ہندوستانی ہیں ۔ ارنب گوسوامی نے ٹائمز ناؤ میں بحث کے دوان طنز کرتے ہوئے کہا کہ جب کیرالا میں ایک پادری کا ہاتھ حضرت محمد ﷺ سے گستاخی کرنے پر کاٹ دیا گیا تو کسی نے مذمت نہیں کی اب اخلاق احمد کے قتل پر اتنا ہنگامہ کھڑا کیا جارہا ہے ، میڈیا میں دبے الفاظ میں اخلاق احمد کے قتل کو حق بجانب قرار دینے کی کوشش جاری ہے اور گا ؤ ر کھشا پر زیا دہ سختی سے لکھا۔
ادیبوں کا خاموش احتجاج :۔ حالیہ عرصے میں تین مشہور ترقی پسند مصنفین کا ہندو انتہا پسندگروہ ، نرندرا دھالوکر ، گوئند پنسرے اوردھاڑوار کے پروفیسر یم یم کلبرگی کا بے دردی سے قتل کردیا گیا اسی کے چند دن بعد دادری میں اخلاق احمد کے قتل کا واقعہ رونما ہوا ، حکومت کی خاموشی پر ملک کے نامور ادیب ومصنفین نے آواز اٹھائی اور اس طرح کے خوفناک واقعات وقتل کی بھر پور مذمت کی 15سے زیادہ مشہور مصنفین نے ساہتیہ اکیڈمی کے ایوارڈس
واپس کردئیے ان میں قابل ذکر نریانترا سیگل ، اشوک واجپائی ، ششی ویشپانڈے ، گجرات کے جی ین
دیوٹے ، کرناٹک کے محمد عباس اورعوامی دانشورپرتاب بھانو مہتا شامل ہیں ۔ اس پر بی جے پی قائدین بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئے ہیں اور کہا کہ اس کے پیچھے کوئی سیاست نظر آتی ہے ۔
آرایس ایس کے ترجمان نے پریس میں کہا کہ ان ادیبوں اور مصنفین کو سیکولرزم کا مرض ہو چکا ہے ۔ اب بھی ملک میں اچھی خاصی تعداد ایسے مفکرین دانشوروں اور سیاستدانوں کی ہے جو تکثیری سیکولر ہندوستانی سماج پر ایقان رکھتے ہیں ، اقلیتوں کے تحفظ اور حقوق کی پابجائی کو ایک دستوری فریضہ سمجھتے ہیں ۔
آرایس ایس کے ایجندے میں صرف گاؤ کشی کا مسئلہ نہیں جو موقع ومحل کے اعتبار سے ایسے درجنوں ایشوز کی فہرست تیار ہے جسے لے کر وقفہ وقفہ سے مسلمانوں پر ظلم وزیادتی کا مزید سلسلہ چلتا رہے گا ، وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ نعرہ ’’ سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘‘ ایک کھوکھلا نعرہ ہے اس کے سائے میں مسلمانوں کی زندگیوں کو اجیرن کرن میں زعفرانی تحریکات کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہی ہیں ، عقل مندی کا تقاضہ ہے کہ مسلمان متحد ہو کر صبر وسکون سے تعلیم وترقی کی جانب اولین توجہ دیں ، اور اپنے اندر برداشت کا مادہ پروان چڑھائیں ، گونا گو پر آشوب حالات کا مقابلہ دانشمندی اور صبر تحمل ومثبت منصوبہ بندی سے بہترانداز میں کیا جاسکتا ہے ۔ ہندو ستا ن کی ا ئند ہ ا نے وا لی نسلیں بیف کی سیا ست سے ا و نچا اٹھ کر ملک کی تعمیر اور تر قی کے لئے اٹھ کھڑے ہو گی ۔ فا شست فر قہ پر ست طا قتو ں کو بری طر ح شکست کا سا منہ کر ناپڑ ے گا۔
از:
ناظم الدین فاروقی
M: 9246248205
E: nfarooqui1@hotmail.com